How Powerful Turkey is? طاقتور ہے اسلامی دنیا میں اگر کوئی ایک ملک امریکی بالادستی کو چیلنج کرتا ہے تو وہ ترکی ہے اس کی ایک مثال حال ہی میں دیکھنے میں آئی جب امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا عمل شروع کیا تو ترکی نے اسرائیل سے ڈپلومیٹک ریلیشنز توڑ دیے ۔ترکی کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں لیکن پھر بھی اس کا شمار دنیا کی بڑی طاقتوں میں ہوتا ہے آخر ترک قوم کی طاقت کیا ہے اور ترکی کتنا طاقتور ہے ہم دیکھتے ہیں ویسے تو ترکی کا رقبہ پاکستان سے کم ہے اس رقبے میں موجود پانی اور آبادی بھی پاکستان سے تھوڑی ہے لیکن اس کے باوجود ترکی کی سب



ترکی کتناطاقتور ہے ؟ اسلامی دنیا میں اگر کوئی ایک ملک امریکی بالادستی کو چیلنج کرتا ہے تو وہ ترکی ہے اس کی ایک مثال حال ہی میں دیکھنے میں آئی جب امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا عمل شروع کیا تو ترکی نے اسرائیل سے ڈپلومیٹک ریلیشنز توڑ دیے ۔ترکی کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں لیکن پھر بھی اس کا شمار دنیا کی بڑی طاقتوں میں ہوتا ہے آخر ترک قوم کی طاقت کیا ہے اور ترکی کتنا طاقتور ہے ہم دیکھتے ہیں اِس ویڈیو میں ۔ ویسے تو ترکی کا رقبہ پاکستان سے کم ہے اس رقبے میں موجود پانی اور آبادی بھی پاکستان سے تھوڑی ہے لیکن اس کے باوجود ترکی کی سب سے بڑی قوت اس کا جغرافیاہی ہے وہ یوں کہ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ترکی دونوں براعظموں کا دروازہ بن چکا ہے اس جیوگرافی کی اتنی اہمیت ہے کہ امریکہ اور روس دونوں چاہتے ہیں کہ ترکی ان کے کیمپ میں رہے اور ترکی اپنی اس اہمیت کو بہت اچھے طریقے سے استعمال کرتا ہے لیکن یہی جغرافیہ ترکی کی کمزوری بھی ہےکیونکہ ہر سال ایشیا سے یورپ جانے کے خواہش مند لاکھوں لوگوں کا ایک سیلاب ترکی میں آجاتا ہے جو ترقی کے لیے بڑا معاشی چیلنج کھڑا کر دیتا ہے یورپ سمجھتا ہے کہ ترکی ایسے تارکین وطن کو روکے گا جبکہ ترکی کے لیے انہیں روکنا اپنے ملک میں ٹھہرانا یا واپس بھیجنا تینوں کام ہی درد سر بن جاتے ہیں۔ 2015 میں ایلان کردی کی ترک ساحل سے ملنے والی لاش نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا تھا ترکی یورپی یونین کا رکن بننا چاہتا ہے لیکن اس کا جغرافیہ ہیں اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ یورپی یونین کے شہری بغیر ویزے کے سارے یورپ میں گھوم سکتے ہیں اگر ترکی یورپی یونین کا رکن بنتا ہے تو ہر سال ایشیا سے آنے والے لاکھوں تارکین وطن بھی باآسانی یورپ میں چلے جائیں گے اس لیے ترکی کی سر توڑ کوشش کے باوجود یورپی یونین ا سے اپنا رکن بنانے سے انکاری ہے۔ معاشی لحاظ سے دیکھیں تو ترکی 863 ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کے سترویں بڑی معاشی طاقت ہے ترک معیشت میں سیاحت ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ہر سال دنیا بھر سے ستر لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں اس کے علاوہ ترقی میں گاڑیوں الیکٹرونکس اور ٹیکسٹائل کے صنعت نے بھی بہت ترقی کی ہے فوجی میدان میں ترکی کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے ترکی دنیا کی آٹھویں بڑی فوجی طاقت ہے جبکہ پاکستان تیرویں بھارت چوتھی اور چین تیسری بڑی فوجی طاقت ہیں۔ نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے کوئی ملک ترکی کے فوجی مفادات کو براہ راست نقصان نہیں پہنچا سکتا ایسا کرنے کی صورت میں اسے مغربی فوجی اتحاد نیٹو سےبھی جنگ کرنا پڑے گی نیٹو اتحاد میں امریکہ کے بعد سب سے بڑی فوج ترکی کی ہی ہیں جس کی تعداد چار لاکھ دس ہزار ہے ترکی کے پاس ایک ہزار اٹھارہ لڑاکا طیارےہیں ۔ ترکی امریکہ کے تعاون سے ایف سکسٹین مینفیکچر بھی کرتا ہے جبکہ نیٹو کا رکن ہونے کے ناطے اسے ریڈار کی نظروں سے بچ کر اڑنے والے امریکی ایف 35 طیارے بھی ملیں گے ۔لیکن اس کے لیے امریکہ ترکی تعلقات میں آئی خرابی کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا ۔امریکی دباؤ کے باوجود ترکی نیٹو کا واحد رکن ملک ہے ۔جو روس سے جدید میزائل ڈیفنس سسٹم خرید رہاہے ۔ترکی کو اپنے جغرافیے اور اسلامی ممالک میں اہمیت کی وجہ سے وسیع سیاسی قوت بھی حاصل ہیں۔ جب امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تو ترکی کے صدر طیب اردگان نے اسلامی ممالک کا اجلاس بلاکر بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دے دیا ۔ترکی کے اس اقدام نے مسلمانوں کے دل جیت لیے تھے۔ تاہم جدید فوج اور معاشی طاقت کے باوجود ترکی تیزی سے مسائل کا شکار بھی ہو رہا ہے جن میں دو مسائل بہت بڑے ہیں ۔پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ ترکی کی کرد اقلیت نے آزادی کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ ان کردوں نے اب ترکی کی سرحد کے ساتھ شام اور عراق میں بھی اپنے فوجی اڈے قائم کر لیے ہیں ۔ترکی نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شام کے شمالی علاقے پر قبضہ کر لیا ہے ۔اور عراق میں بھی اس کی فوج داخل ہوچکی ہیں ۔اسی فوجی مداخلت کی وجہ سے ترکی کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ترکی کا دوسرا بڑا مسئلہ یورپی یونین اور امریکا سے خراب تعلقات ہیں۔یورپی یونین کو کردوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیوں پر ترکی سے شکایت ہے۔ لیکن امریکہ سے ترکی کے اختلافات کی وجہ سے زیادہ سنگین نوعیت کی ہے۔ 2016 میں جب ترک عوام نے فوجی بغاوت کو ناکام بنایا ۔تو اس سازش کا الزام ترکی نے فتح اللہ گولن پر لگایا تھا ۔فتح اللہ گولن اُس وقت امریکہ میں بیٹھے تھے۔ ترکی کے مطالبے کے باوجود امریکہ نے فتح اللہ غولن کو ترقی کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔یہ الزام بھی سامنے آیا کہ ترکی میں امریکی فضائی اڈا بھی فوجی بغاوت میں استعمال ہوا ہے۔ ان واقعات کے بعد ترکی نے امریکی کیمپ سے ہٹ کر روس سے تعلقات بڑھانا شروع کر دیئے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ترکی تیزی سے روس اور ایران کے قریب آ رہا ہے پاکستان اور قطر سے بھی اس کے بہترین تعلقات ہیں تاہم شام ایران اسرائیل سعودی عرب اور امریکہ سے اس کے تعلقات کافی حد تک کشیدہ ہوچکے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ترکی اپنی بہترین جغرافیائی پوزیشن معاشی ترقی نیٹو کی ر کنیت اور فوجی طاقت کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقت ہے ۔تاہم کردوں کی بغاوت امریکہ اور یورپ سے مسلسل کشیدہ تعلقات اور ہمسایہ ممالک کے بگڑتی صورتحال نے ترکی کے لئے بڑے چیلنچ پیدا کر دیے ہیں ۔
Share To:

Post A Comment:

0 comments so far,add yours