گزشتہ برس کی بات ہے۔ ایک انگریزی اخبار کی ورق گردانی کے دوران ایک خبر نظروں سے گزری۔ ذہن سے صلاح و مشورے کے بعد ہاتھوں نے قلم کو زحمت دی۔ ملک میں غربت بہت ہے۔ مسائل کا انبار اس سے کہیں زیادہ۔ اس صورتحال میں جرائم کی سنگینی، قتل، غبن، اغوا، بم دھماکوں اور کرپشن تک محدود نہیں۔ یہ آپ اور مجھ جیسوں کے اندر بھی سرایت کر رہی ہے۔ ہم جس خبر کو محسوس نہ کریں، ہمارے نزدیک وہ سنگین نہیں۔ اور وہ خبر جو ہماری روح کو زخمی کردے، سب سے اہم اور سنجیدہ۔ بے حسی بھی ایک جرم ہے۔ ضلع ساہیوال میں گورنمنٹ اسکول کی ایک ہیڈ مسٹریس نے بچی کو صرف اس خطا پر بے رحمی سے زرد و کوب کیا کہ عجلت میں اس نے ہیڈ مسٹریس کا واش روم استعمال کرلیا۔ مار ایسی نہ پڑی کہ چہرے، ہاتھوں یا کمر پر چپت رسید ہوتی بلکہ 6 سالہ بچی کے نازک وجود کو خون میں لتھیڑ دیا گیا۔

حمیرا کا جی اس دن، صبح سے ہی بے چین تھا۔ موسم کا اثر تھا یا کچھ انہونی ہونے کو تھی؟ اس سے کوئی کام ڈھنگ سے انجام نہیں دیا جا رہا تھا۔ کپڑے دھو کر صحن میں رکھ آئی، ہنڈیا چولہے پر چڑھا دی۔ اس کی لاڈلی کے اسکول سے لوٹنے کا وقت ہو چلا تھا، جو گھر داخل ہونے سے قبل ہی بھوک کا شور مچا دیتی۔ کھانا وقت پر نہ ملے تو رونے لگتی۔ بڑا بیٹا اور حمیرا کا شوہر کسی بھی وقت گھر پہنچنے والے تھے۔ مگر اس پر تو گھبراہٹ طاری تھی۔ پرندے بھی اس دن ضرورت سے زیادہ چہک رہے تھے۔ ہوا ساکت اور سورج کی تپش کا حال، گویا سوا نیزے پر پہنچ گیا ہو۔

یہ چھوٹا سا گاؤں، عباس پور، چک نمبر2/10-L، اجڑے، بنجر، خاک کے شہر ہڑپّہ سے کچھ ہی فاصلے پر ضلع ساہیوال میں آباد ہے۔ حمیرا جب بیاہ کر یہاں آئی تو اگلے ہی دن ہڑپّہ کی وحشت اس پر طاری ہو نے لگی۔ دن میں کئی بار میاں سے کسی دوسرے چک میں بسنے کا کہتی مگر وہ نہ مانا، یہاں تک کہ ایک بیٹا اور بیٹی بھی دنیا میں آگئے۔ یہ چک اسے پسند آئی نہ یہاں کے لوگ جی کو بھائے تھے۔ وہ اکثر یہی سوچتی کہ نجانے اتنی خاموشی، ویرانی، ہیبت کیوں طاری رہتی تھی سب پر؟

اسے یقین ہو چلا تھا کہ اجڑے ہوئے ہڑپّہ کی ڈری سہمی ہواؤں کا آسیب اس چک اور یہاں کے باسیوں پر طاری تھا۔

ان خیالوں میں اس کی ہنڈیا جل گئی… حمیرا کو بیٹی کے شور مچانے کی فکرستانے لگی۔ باپ بیٹے تو دہی سے روٹی کھا لیتے، مگر اس کی لاڈلی ایسا کچھ نہیں کھاتی تھی۔ یوں بھی اس کی فرمائش پر چنے والی کڑھی پک رہی تھی۔ حمیرا نے گھڑی پر نظر دوڑائی اور اب تک تینوں میں سے کسی کے نہ آنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس کے کچے پکے حساب سے چھوٹی کو تو پندرہ منٹ پہلے پہنچ جانا چاہیے تھا۔ دل ہی دل میں باپ بیٹے کی خبر لینے کی ٹھانی، ’’آجائیں ذرا یہ باپ بیٹے، انہیں دوڑاتی ہوں اس کے اسکول! میری معصوم کلی، اتنی گرمی میں کمہلا گئی ہوگی۔‘‘ حمیرا کی پڑوس والی رضیہ، گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول میں استانی تھی۔ چھوٹی اسی کے ساتھ اسکول آتی اور جاتی تھی۔ انہی وسوسوں اور خیالوں کی مڈبھیڑ میں حمیرا نے گیلے کپڑوں کو رسیوں پر پھیلانا شروع کر دیا۔ دھوپ بہت تیز تھی۔ اس کا خیال تھا کہ گھنٹے، ڈیڑھ گھنٹے میں کپڑے سوکھ جائیں گے۔ چھوٹی کے کپڑے سب سے زیادہ میلے ہو تے تھے۔ شام کو قرآن پڑھنے جاتی تو روز ماں بیٹی اسی مخمصے میں رہتیں کہ کیا پہنا جائے؟

کچھ آوازیں دور سے آتی محسوس ہورہی تھیں۔ حمیرا کو خیال گزرا کہ وہ لوگ پہنچ گئے۔ لیکن یہ کیا، باپ بیٹے اکیلے دوڑے چلے آرہے تھے۔ چھوٹی کہاں رہ گئی؟ رضیہ بھی اکیلی چلی آرہی تھی۔ الہی خیر! میری بچی کیوں نہیں آئی؟ ماں کے دل میں بے اختیار صدا گونجی۔ اس کے دل کی رفتار بے تحاشہ بڑھ گئی۔ کانوں میں ملی جلی آوازیں پڑ رہی تھیں۔ کوئی کہہ رہا تھا، ’’چھوٹی اسکول سے غائب ہے۔‘‘

حسب معمول رضیہ چھوٹی کو اپنے پرس اور پانی کی بوتل کے ساتھ اسٹاف روم میں بٹھا کر کسی اہم کام سے ہیڈ مسٹریس کے پاس گئی۔ واپس آئی تو وہ موجود نہ تھی۔ ہرجگہ ڈھونڈا، تلاش کیا لیکن وہ نہ ملی۔ اسکول کی صفائی پر مامور خاکروب نے اسے رازداری سے بتایا کہ وہ بیت الخلاء کی صفائی کر رہا تھا۔ چھوٹی حاجت رفع کےلیے عجلت میں ہیڈ مسٹریس والے بیت الخلاء میں چلی گئی۔ ہیڈ مسٹریس نے اسے وہاں سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا۔ پہلے توبچی کو تھپڑ مارے پھر غصے میں دھکا دیا۔ بچی سیمنٹ کی دیوار کے ساتھ زور سے ٹکرائی اور اس کے حسّاس اعضاء سے تیزی سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ حمیرا اس سے آگے نہ سن سکی، نازوں پلی معصوم بچی کا چہرہ اور آنکھوں کے سامنے گھومتا اندھیرا۔ اس کے ڈوبتے ہو ئے دل اور نبض کا ساتھ نہ دے پایا۔ چھوٹی کے نازک وجود کا لمس، اس کی خوشبو محسوس ہورہی تھی اسے۔ جانے کتنے لمحے بے خیال، بے ہوش رہنے کے بعد حمیرا کو پہلا خیال اپنی بچی کاآیا۔ چیخنے، رونے کے سوا وہ کچھ نہیں کر پا رہی تھی؟ رضیہ اس کے پاس موجود تھی۔

حمیرا کے استفسار اور حالت کے پیش نظر اس نے بتایا کہ ہیڈ مسٹریس نے جب چھوٹی کی حالت دیکھی تو اسے لے کر اپنے کسی رشتے دار کے گھر چلی گئی تاکہ کسی طرح خون کو بہنے سے روکا جا سکے۔ لیکن اسکول کے چوکیدار اور اس خاکروب کی مدد سے چھوٹی کو وہاں سے نکال کر کسی پرائیویٹ اسپتال میں لے جایا گیا۔ حمیرا کیونکر گھر میں، روتے ہوئے ہڑپّہ کی فریادوں کو اکیلے سن سکتی تھی۔ وہ دونوں بھی اسپتال کی طرف چل پڑیں۔ دو فرلانگ دوری پر قائم اسپتال کا راستہ اس دن طویل ہو گیا۔ اس کا پورا وجود چیخ رہا تھا۔ اپنی بچی کی اذیت کو محسوس کررہا تھا۔ چھوٹی کے سوا کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ’’یااللہ! مجھے ہمت عطا کر، ہم سے کون سا ایسا گناہ سرزد ہوگیا ہے، کس کی آہ، کس کی ہائے لگی ہے ہمیں؟ میری بچی کو بچا لے، اس معصوم کی تکلیف مجھے دے دے! اسے میری زندگی، میرے حصے کی ساری خوشیاں عطا کردے۔‘‘

حمیرا کی آہ و بکا جاری تھی۔ اسی اثناء میں اسپتال آگیا۔ وہ دونوں ایمرجنسی وارڈ کی طرف دوڑ رہی تھیں۔ واقعے کی اطلاع پورے چک کو ہوچکی تھی۔ بہت سے شناسا چہرے نظر آئے، دکھائی نہیں دے رہی تھی تو صرف چھوٹی۔ حمیرا اپنی بچی کو دیوانہ وار ڈھونڈ رہی تھی، سوچ رہی تھی کہ اسے تو خراش بھی آجاتی تو رو رو کر گھر سر پر اٹھا لیتی تھی۔ اب اس کی آواز کیوں نہیں آرہی؟ اف خدایا! وہ اتنی شدید اذیت کیسے سہہ رہی ہوگی؟ ’’یہ کیا کر دیا تُو نے میرے مالک!‘‘

وارڈ کے باہراس کا میاں اور بیٹا کھڑے تھے۔ ان کی حالت بھی تسلی بخش نہ تھی۔ رو رو کر دونوں کی آنکھیں سوج چکی تھیں۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر حمیرا کی سانسیں رُک رہی تھیں۔ ’’میری چھوٹی ٹھیک تو ہے؟‘‘ یہ سوال وہ بار بار دوہرا رہی تھی۔ ڈاکٹر کے مطابق زخم گہرا تھا۔ ٹانکے لگائے جا رہے تھے۔ بیٹا روتے ہوئے بتارہا تھا اور حمیرا کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔

پھولوں کو کون مسلتا ہے؟ انہیں شاخ سے کون توڑتا ہے؟ وہاں موجود کچھ لوگ تھانہ کچہری کی بات کر رہے تھے مگر حمیرا پر صرف اپنی بچی کو دیکھنے کا جنون سوار تھا۔ ڈاکٹر نے اسے اندر بچی کے پاس جانے کی اجازت دی تو اس کے قدم بھاری ہونے لگے۔ دکھیاری ماں سوچتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔ ‘’’اپنی معصوم بچی کا سامنا کیسے کروں گی، وہ کیا سوچے گی؟ امّاں تو روز یہ کہہ کر اسکول بھیجتی ہے کہ استاد کا درجہ والدین سے بھی زیادہ ہے، ان کی ڈانٹ ڈپٹ کا برا نہ منایا کر میری شہزادی۔ وہ تیرے بھلے اور اچھے مستقبل کے لیے یہ سب کہتے ہیں… استاد ماریں بھی تو سہہ لیا کر!‘‘

یہ جملہ صرف حمیرا کے کانوں میں نہیں، پورے چک اور بنجر ہڑپّہ میں گونج رہا تھا۔

بچی، ماں کے سامنے تھی۔ روزانہ صبح نہلا دھلا کر کنگھی کرکے، اس کی دو چوٹیاں بناکر، جب حمیرا چھوٹی کو آئینہ دکھاتی تو وہ لازماً یہ سوال کرتی: ’’امّاں تو مجھے کتنا پیار کرتی ہے؟‘‘ زرد رنگت، سوکھے، پپڑی جمے ہوئے ہونٹ۔ تکلیف، اذیت سے کانپتا ہوا جسم، سوجی ہوئی آنکھیں، ماتھے پر پڑا ہوا نیل، خون میں لتھڑا ہوا یونیفارم۔ یہ اس کی چھوٹی تھی؟ وہ آگے بھی نہیں بڑھ پا رہی تھی اور اپنے قدموں پر کھڑا رہنے کی ہمت بھی کھوتی جا رہی تھی۔ چھوٹی نے ماں کو دیکھ کر اپنے بازو وا کردیئے۔ ماں سوچ رہی تھی کیسے زخمی وجود کو خود میں سمیٹ لے، گھائل روح کے زخم بھرنے کےلیے آخر کیا کرے؟ رضیہ بھی زار و قطار رو رہی تھی، حمیرا کو سہارا دے رہی تھی۔ وہ اپنی بچی سے لپٹ گئی۔ اس کے معصوم وجود کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ رو رو کر اس کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔
اسکول، استاد، کتابیں، پڑھائی… سارے الفاظ دھندلا رہے تھے۔ تکلیف اور کمزوری کے باعث چھوٹی اپنی ماں کو اس شدت سے لپٹا بھی نہیں پائی جس طرح روز اسکول سے آکر ’’امّاں!‘‘ کہہ کر لپٹا کرتی تھی۔

حمیرا اپنی بچی کی اس تکلیف کو کم نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اتنی چھوٹی، ناسمجھ تھی کہ اسے سمجھا بھی نہیں سکتی۔ بس دعا کر سکتی تھی اس کےلیے؛ اور بد دعا دے سکتی تھی اسے جس نے ان کے ہنستے کھیلتے گھرانے کو اپنی انا کی خاطر زندگی بھر کے روگ سے دوچار کر دیا تھا۔ ان بااثر اور بااختیار لوگوں نے بچی کے باپ کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا۔ ہڑپّہ پولیس نے ایف آئی آر کاٹنے اور بچی کے زخموں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ شاید یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان تھا… شاید نہیں یقیناً!

کیا انسان نام کی مخلوق ناپید ہوچکی ہے؟ تعلیم کے سوداگروں کا یہ رویہ کس تہذیب اور ثقافت کی ترجمانی کرتا ہے؟ بچہ تو بچہ ہوتا ہے، وہ بھی چھ سال کا۔ اس سے کوئی غلطی لاعلمی میں سرزد ہو جائے تو اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے؟

حمیرا ٹھیک کہتی تھی۔ ہڑپّہ کے پاس نہ رہو، مردہ شہر کے زندہ لوگ بھی اندر سے مرجا تے ہیں۔ چھوٹی اس کرب اور صدمے سے زندگی بھر نہیں نکل پائے گی۔ وہ ماں کے کہنے پر بھی اسکول نہیں جائے گی۔ ماں اسے کیسے اور کیا بتائے گی؟ کیا زندگی بھر اس سے نظر ملا پائے گی؟

Share To:

Post A Comment:

0 comments so far,add yours