سسٹم ہر کمپلین کو متعلقہ محکمہ تک پہنچا دیتا ہے اور وہاں سے یہ متعلقہ افسر تک… مگر وہ افسر اس کمپلین پر اپنی مرضی کے مطابق رائے دے کر بنا کوئی کارروائی کیے نمٹا دیتا ہے اور فیڈ بیک نیگٹیو دینے کے باوجود بھی کوئی دوبارہ اس مسئلے پر بات نہیں کرتا۔ اس صورت حال نے اس پلیٹ فارم کو ناکارہ بنا کر رکھ دیا ہے۔

کچھ مثالیں پیش ہیں:
ہمارے اردگرد موجود سگریٹ نوش حضرات ہمارے لیے سخت کوفت کا باعث بنتے ہیں۔ میں نے ایک بار کمپلین کی کہ کم از کم سرکاری اداروں کی حدود میں سگریٹ نوشی پر مکمل پابندی عائد کردی جائے۔
جواب آیا یہ معاملہ وزارت صحت سے متعلقہ نہیں ہے۔ یعنی وزارت صحت کی ذمے داری صرف سگریٹ کے پیکٹ پر پیغام لکھنے تک محدود ہے۔
فیصل آباد میں سرگودھا روڈ پر سیوریج کے کھلے گٹروں کی شکایت پر یہ جواب دے کر کمپلین کلوز کردی گئی کہ یہ واسا کی حدود میں ہی نہیں آتے۔ یعنی کسی کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ان کھلے گٹروں میں کوئی راہگیر، بچہ، بوڑھا یا بائیک والا گر کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
شیخوپورہ ریلوے اسٹیشن پر کافی عرصے سے کچھ ڈبے گل سڑ رہے ہیں، سوچا قومی ادارے کے اثاثے گل سڑ رہے ہیں۔ کوشش کرتا ہوں شاید کسی کو خیال آجائے۔ تصاویر بنا کر سٹیزن پورٹل میں ڈالیں اور لکھا کہ یہ ڈبے کئی سال سے یہاں کھڑے سڑ رہے ہیں، یا تو انہیں مرمت کروا کر استعمال میں لائیں اور اگر یہ اب قابل مرمت نہیں ہیں تو ان کا سامان بیچ کر ریلوے کی آمدنی میں کچھ اضافہ کرلیں۔

Share To:

Post A Comment:

0 comments so far,add yours