Top News



قومی اسکواڈ کی انگلینڈ میں پہلی کورونا ٹیسٹنگ کی رپورٹس پی سی بی کو موصول ہوگئی ہیں۔


وورسٹر میں موجود 20 کھلاڑیوں اور ٹیم منیجمنٹ کے 12 اراکین کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں، ای سی بی میڈیکل پینل کے زیر اہتمام قومی اسکواڈ کی وورسٹر میں کوویڈ 19 ٹیسٹنگ گذشتہ روز ہوئی تھی، ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آنے پر قومی کھلاڑیوں کو وورسٹر میں ٹریننگ کی اجازت مل گئی، تاخیر سے اسکواڈ کو جوائن کرنے والے اسپنر ظفر گوہر اور فزیو کلف ڈیکن کے ٹیسٹ کی رپورٹس بھی آج موصول ہوجائیں گی۔

اس سے قبل لاہور میں محمد حفیظ، وہاب ریاض، فخرزمان، محمد رضوان شاداب خان اور محمد حسنین کے ٹیسٹ بھی نیگیٹو آئے تھے، دوسری بار نتیجہ منفی آنے کے بعد اب یہ 6 کرکٹرز دورہ انگلینڈ کے لیے کلیئر ییں، ان کے سفر کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔





امریکا کتنا طاقتور ہے ؟ امریکا کی طاقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ دنیا کا ایک ملک بھی ایسا نہیں جس کی زمین پر یہ جس کی سرحد پر امریکی فوجی اڈہ یا اس کا بہری بیڑا نہ کھڑا ہوا ہو۔ امریکا کے دنیا بھر میں اپنی زمین سے باہر 800 فوجی اڈے ہیں جبکہ امریکہ کے بعد دنیا کی تین بڑی طاقتوں روس فرانس اور برطانیہ ان تینوں کے کل ملا کر 30 فوجی اڈے ہیں اس سے امریکہ کے لمبے اور مضبوط بازوؤں کا پتہ چلتا ہے ۔امریکی فوجی بجٹ 611 ارب ڈالر کا ہے ۔یہ دفاعی بجٹ امریکہ کے بعد بڑی طاقتوں چین روس فرانس برطانیہ سعودی عرب انڈیا جرنی ان تمام کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ آج کل کی دنیا میں ایئرکرافٹ کیریئر کو بہت بڑی جنگی طاقت مانا جاتا ہے۔ اکیلے امریکہ کے پاس 11 ایئر کرافٹ کیریئرزہیں۔ جبکہ امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقتوں روس ،چین ،فرانس، برطانیہ ان سب کے پاس دو سے زیادہ ایئر کرافٹ کیرئیر نہیں ہیں ۔ امریکہ کا سیاسی اثر و رسوخ بھی دنیا میں بہت زیادہ ہے۔ وہ اس طرح کہ اقوام متحدہ کے سب سے طاقتور باڈی سلامتی کونسل میں امریکہ کے پاس ویٹو پاور ہے۔ دنیا میں تین بڑے ادارے اقوام متحدہ ،نیٹو فورسز اور ورلڈ بینک امریکی امداد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے اس لیے یہ تینوں ادارے امریکہ کے اثر میں ہوتے ہیں۔ ان تینوں باتوں کے علاوہ امریکہ دنیا کے بڑے حصے میں اپنی ضرورت کے مطابق فوجی اور معاشی امداد دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ ممالک اور یہ جغرافیے اس کے سیاسی اثر میں رہتے ہیں ۔علمی اور تحقیقی لحاظ سے بھی دیکھیں تو امریکہ پوری دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ دنیا کی ٹاپ 20 یونیورسٹیز میں سے سترہ امریکہ میں ہیں ۔ "سیلیکون ویلی" ہیں وہ جگہ جہاں ٹیکنالوجی جنم لیتی ہے امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں دنیا کے بہترین دماغ علم حاصل کرنے تجربہ حاصل کرنے یا پیسے کی تلاش میں آتے ہیں یا دنیا کے بہترین دماغوں کو یہاں اچھے پیکجز پر لایا جاتا ہے۔ فیسبوک ،گوگل ،ایپل اور مائیکروسافٹ جیسے بڑے بڑے ادارے سلیکون ویلی میں موجود ہیں۔ معاشی لحاظ سے دیکھیں تو امریکی معیشت اٹھارہ اعشاریہ ستاون ٹریلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے ۔امریکہ کے بعد چھین کا نمبر ہے لیکن چینی معیشت کا حجم امریکہ سے سات ٹریلین ڈالر کم ہے ۔معادنی لحاظ سے بھی امریکہ اسطرح مالا مال ہے کہ دنیا کا سب سے زیادہ اور بہترین کوئلہ امریکی زمین میں پایا جاتا ہے ۔ اور تیل کے دسویں نمبر پر سب سے زیادہ ذخائر بھی امریکی زمین میں موجود ہیں۔ امریکا دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی بناتا ہے اور مہنگی ترین پروڈکٹس تیار کرتا ہے۔ اس لیے امریکہ کا ٹریڈپروفائل فرسٹ ورلڈ کا ہے جبکہ اس کے مدمقابل جو ممالک ہیں روس اور چین ان کا ٹریڈ پروفائل تھررڈ ورلڈ کا ہے۔ امریکہ کی طاقت اس کی کامیاب اور سب سے قدیم جمہوریت ہے جس میں تقریبا دور صدیوں سے کوئی تبدیلی نہیں آیا یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ادارے خود مختار اور مضبوط ہوتے گئے۔ مختصر یہ کہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ لیکن اپنے سُپر پاور سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لئے امریکہ کو مسلسل اپنی ایکسپورٹس بڑھانا ہوتی ہیں۔ ایکسپورٹس مسلسل بڑھانے کے لئے امریکہ کو اپنی مصنوعات میں مسلسل جدد لانا ہوتی ہے۔ یہ جدد لانے کے لئے اُسے دنیا کے بہترین دماغ چاہیے۔ اس سارے تسلسل میں سے اگر ایک گھڑی بھی کم ہوجائے تو امریکہ کا سپر پاور سٹیٹس خطرے میں پڑ سکتا ہے


پاکستان کتنا طاقتور ہے؟
 سرد جنگ کا دور ہو یا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جن کا عالمی امور میں بہت اہم کردار رہتا ہے ۔ایسے میں جب امریکہ اور پاکستان کے مفادات ایک ہو جاتے ہیں تو دونوں ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں۔ اور جب مفادات ٹکرانے لگتے ہیں تو پاکستان پر امریکی پابندیاں لگا دیتا ہے۔ اور پاکستان امریکہ سے تعاون کم کرنے لگتا ہے۔ پاکستان کی عالمی سیاست میں کیا اہمیت ہے اور 21 کروڑ سے زائد آبادی کا یہ ملک کتنا طاقتور ہے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی طاقت اس کا زبردست جغرافیہ ہے سب سے پہلی بات تو یہ کہ پاکستان ایشیاء میں واقع ہے جو تیزی سے عالمی سیاست اور معیشت کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔
 پاکستان کے مشرق اور شمال میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک بھارت اور چین ہیں۔ چین کو افریقہ اور عرب ریاستوں سے تجارت کے لیے اور بھارت کو مغرب میں وسط ایشیا تک ٹریڈ روٹس کے لیے پاکستان سے بہتر راستہ میسر نہیں جبکہ شمال مغرب میں واقع افغانستان کو سمندر تک رسائی کے لیے بھی پاکستان کا ساتھ چاہیے۔مستقبل کے منظرنامے میں ایشیا کا یہ خطہ اتنا اہم ہے کہ امریکہ بھی نائن الیون کے بعد سے افغانستان میں مستقل ڈیرے ڈال چکا ہے ۔دفاعی اعتبار سے دیکھیں تو پاکستان کے پاس دنیا کی پانچویں سب سے بڑی فوج ہے۔ جس کی تعداد چھ لاکھ 20 ہزار ہے ۔عالمی رینکنگ میں پاکستان کی فوج کو دنیا کی گیارہویں سب سے طاقتور فوج مانا جاتا ہے حالانکہ دفاع پر خرچ کرنے کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں 23ویں نمبر پر ہے ۔ پاک فوج کی طاقت کا اندازہ اس بات سےلگائیں کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے ہے جس نے دہشتگردی کے اندرونی نیٹ ورک کو دس سال سے بھی کم عرصے میں کچل کر رکھ دیا۔ یاد رکھے یہی چیلنج شام لیبیا یمن اور عراق بھی درپیش تھا لیکن یہ تمام ممالک ان خطرات کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے اور خانہ جنگی کا شکار ہو گئے۔ اسی طرح افغانستان میں امریکہ اور 70 ملکوں کا فوجی اتحاد سترہ سال میں مسلح گروہوں کو شکست نہیں دے سکا ۔
پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جو تھرڈ اور فورتھ جنریشن کے فائٹر جیٹس آب دوزے جنگی بحری جہاز اور سیٹلائٹس تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا نوجوان آبادی کے اعتبار سے پانچواں اور رقبے کے لحاظ سے پینتیسواں بڑا ملک ہے۔ معاشی میدان میں دیکھا جائے تو پاکستان پرچیزنگ پاورکے لحاظ سے دنیا کی چوبیسویں اور جی ڈی پی کے اعتبار سے اکتالیسویں بڑی اکانومی ہے۔ یعنی پاکستا ن کی مالی صورتحال دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک سے بہتر ہے۔ پاکستانیوں کی سالانہ اوسط انکم 1629 ڈالر ہے جو اس خطے میں بھارت اور بنگلہ دیش سے زیادہ ہے۔ 
عالمی معاشی اداروں کے مطابق پاکستان 2030 تک دنیا کی بیسویں بڑی معاشی طاقت بننے کی طرف جارہا ہے جبکہ 2050 تک پاکستان اٹلی اور کینیڈا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سو لویں بڑی معیشت بن سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور امن کا تسلسل برقرار رہے۔ پاکستانی معیشت کی کمزوری یہ ہے کہ اس کا زیادہ انحصار زراعت کے شعبے پر ہے ۔ زیادہ پانی اور زرخیز زمین ہونے کے باوجود پاکستان کی زرعی پیداوار عالمی معیار سے کم ہے جس کی بڑی بنیادی وجہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہ کرنا ہے۔
پاکستان اپنی زراعت اور صنعت میں جدد لائے تواسے تیزی سے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کو دنیا کی تین بڑی عالمی طاقتوں چین، روس اور ترکی کے قریب تک دیکھا جاتا ہے۔ جب کے امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ سےپاکستان کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں۔ سی پیک کے باعث پاکستان کے اہمیت مزید بڑھ رہی ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ ممالک تجارتی مقاصد کے لئے پاکستان کا رُخ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کی بڑی کمزوری اِس کے ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان سے خراب تعلقات ہیں۔ مختصر یہ کہ پاکستان ایک بہت بڑے جغرافیے اور آبادی والے ممالک کے درمیان قائم ایک مضبوط اور طاقتور ملک ہے اس کی قوت کا بڑا حصہ اس کی بڑی آبادی ،اہم جغرافیائیے،طاقتور فوج اور چین کے ساتھ تعلقات سے جڑا ہوا ہے



معزز دوستوں السلام علیکم علیکم دوستو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں قیامت کی دس نشانیوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک علامت زلزلوں کا پہ درپے آنابھی ہوگا ایک وقت ایسا تھا کہ اگر کہیں سے اطلاع ملتی کہ فلاں جگہ زلزلہ آیا ہے تو وہاں کے لوگ فورا توبہ استغفار کرنا شروع کر دیتے تھے لیکن آج کل ہر وقت کہیں نہ کہیں زلزلے نمودار ہو رہے ہیں اور ان میں جانی و مالی خسارہ الگ ہوتا ہے اور حال یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی اس بات کا علم کے زلزلے اتنی شدت کے ساتھ کیوں آتےہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ زمین کو ایک بہت بڑی چھپکلی نے اپنی پشت پر اٹھایا ہوا ہے۔ تو کسی کا خیال ہے کہ زمین کسی گائے کے سینگوں پر قائم ہے۔ اور جب یہ گائے اپنے سینگ ہلاتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ جب کہ مذہبی عقیدے کے لوگ یہ کہتے تھے کہ اللہ اپنے نافرمان بندوں کو ان زلزلوں کی وجہ سے ڈراتا ہے جبکہ ارسطو اور افلاطون کی نظریات ملتے جلتے تھے۔ جن کے مطابق زمین کی تہوں میں موجود ہوا جب گرم ہوکر زمین کی پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے ۔تو زلزلے آتے ہیں لیکن دوستو سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علم تحقیق کے دروازے بھی کھلتے چلے گئے اور اس طرح ہر نئے قدرتی سانحے کے بعد اس کے اسباب کے بارے میں جاننے کی جستجو نے پرانےنظریات کی نفی کردی لہذا اب ٹیکنالوجی کا یہ حال ہے کہ سمندری طوفان کی شدت اور ان کی زمین سے ٹکرانے کی مُدد کا تائین کر کے پہلے سے ہی حفاظتی بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔ مگر زلزلے کی آمد نہایت خاموش ہوتی ہے اسکا پتا اس کی پھیلانے والی تباہ کاریوں کے بعد ہی چلتا ہے۔ ویسے تو ایسے آلات ایجاد ہو چکے ہیں جو زلزلہ گزرنے کے بعد ان کی شدت ان کے مرکز اور آفٹر شاکس کے بارے میں بتا دیتے ہیں اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختلف گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکنو پلیٹز کہتے ہیں اور اس کے نیچے ایک پیگلا ہوا معدہ ہوتا ہے جسے میگمہ کہا جاتا ہے۔ میگمہ کی حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے۔ جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیدا ہوتی ہیں اور وہ شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگمہ میں دھنس جاتا ہے اور کچھ اوپر کو ابھر جاتا ہے ۔جس سے زمین پر بسنے والی مخلوق زمینی سطح پر حرکت محسوس کرتی ہیں اور دوستوں گزشتہ سال پیش آنے والے زلزلوں کی فہرست اگر نکال کر دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ لاہور میں آنے والا اس سال کا پہلا زلزلہ 22 اپریل کو آیا جس کے جھٹکے نہ صرف شدید ترین تھے بلکہ اس کی شدت 3.2 تھی جبکہ دوسرا زلزلہ 1 ستمبر کو رونما ہوا اور اس کی شدت 4.3 اور تیسرا زلزلہ 23 ستمبر کو لاہور اور ساہیوال سمیت دیگر شہروں میں آیا جس کی شدت 4.1 تھی اور اس کے جھٹکے بھی شدید محسوس کئے گئے اور اب جرمنی سے پی ایچ ڈی کرنے والے ماہر خلائی سانسس اور پنجاب یونیورسٹی شعبہ سپیس کے چیئرمین ڈاکٹر عامر محمود صاحب نے پیشنگوئی کی ہے کہ ہندوکش سے زلزلہ نکلے گا جو لاہور آ کر اس کو دو حصوں میں تقسیم کردے گا اور لاہور کا ایک حصہ لاہور طرسٹ کے نام سے بن جائے گا بعد میں یہی زلزلہ ملک کے باقی حصوں پھیلتا ہوا تباہی و بربادی پھیلائے گا لیکن اس کا کوئی ٹائم پیریڈ نہیں دیا گیا پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ ایسا ہوگا یا نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے کیا ہم اللہ سے سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہے یا ہماری بد اعمالیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ عرش والا بار بار اس زمین کو ہلاکر ہمیں جنچھوڑ رہا ہے کیا 2005 والے زلزلے کی تباہی سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا اللہ فرماتا ہے اگر تم میرے دین سے منحرف ہو جاؤ تو بہت جلد میں تمہیں ہٹا کر اپنے ایسے بندے لے کر آؤں گا جو مجھ سے محبت کرتے ہو اور جن سے محبت کروں گا اور وہ جہاد کریں گے میری راہ میں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے اللہ بڑی کشاکش رکھنے والا اور خبردار ہے المائدہ 2 دوستوں ہمارے پاس سدھرنے کا وقت ہے اللہ ہمیں اپنے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے عذاب سے ہمیں بچائے آمین


دنیا کی سب سے امیر ترین انسان بل گیٹس کے گھر کے بارے میں آج ہم نے آپ کو بتانا ہے بل گیٹس بلاشبہ دنیا کے سب سے امیر ترین شخص ہے فولٹس کے مطابق بل گیٹس کے اثاثوں کی جو مالیت ہےوہ 79سوبلین ڈالر ہے ۔ایسی امیر ترین شخصیت کی رہائش گاہ بھی یقینا پرتعیش ہوگی اور اس میں موجود سہولیات کی صورت دلچسپی سے خالی نہ ہو گی اور یہ انتہائی حیرت انگیز گھر ہے بل گیٹس کی رہائش گاہ کو زینا ڈو دوپوائنٹ زیرو کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس کے گھر کا زیادہ تر حصہ درختوں اور ہریالی سے گھیرا ہوا ہے۔ ڈیڑھ ایکڑ کے رقبے پر پھیلا یہ گھر درختوں کے درمیان گھیرا ہونے کی وجہ سے انتہائی زبردست معلوم ہے ۔بل گیٹس کا گھر ایک پہاڑی کے اندر تعمیر ہے سمجھ لیجئے کہ اس کی چھت خود پہاڑی زمین ہے جو کہ سرد موسم میں گرم اور گرم موسم میں ٹھنڈا رہتا ہے۔ اس گھر کی تعمیر میں 7 سال کا عرصہ لگا جوکہ 6 کروڑ 70 لاکھ ڈالر میں تعمیر ہوا بل گیٹس کا گھر زمین پر انتہائی منفرد اہمیت کا حامل ہے جس میں 24 باتھ روم ہیں جس میں دس بڑے اور چودہ چھوٹے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بل گیٹس فیملی روزانہ کی بنیاد پر پورے مہینے الگ الگ باتھ روم استعمال کرسکتی ہیں اس گھر میں ورزش کے حوالے سے ہر قسم کی جدید سہولیات موجود ہیں بل گیٹس کے اس پرتعیش گھر میں آپ کو جم کئی سوئمنگ پول سٹیم روم کے علاوہ زیر زمین میوزک سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے ۔اس پرتعیش گھر میں تقریبا 24 باتھ روم ہیں جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو بتایا ہے اور چھ باورچی خانے بھی تعمیر کیے گئے ہیں یہ باورچی خانے گھر کے مختلف حصوں میں تعمیر ہے ۔بل گیٹس نے یہ گھر انیس سو اٹھاسی1988 میں دو ملین میں خریدا تھا جس کی ساتھ سال بعد ہی مالیت تریسٹھ ملین ڈالر ہو چکی تھی تاہم سال 2012 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ گھر اُس وقت ایک سو تیئس اشاریہ چون ملین کے ڈالر کی قیمت کو پہنچ چکا تھا اور موجودہ قیمت اس سے بھی زائد بتائی جاتی ہے۔ بل گیٹس وہ امیر ترین شخصیت ہے جنہوں نے گھر میں چمگادڑ کے غار کے طرز پر ایک غار بھی تعمیر کر رکھی ہے اس غار میں تین گیراج بھی ہیں جن میں 30 گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اس کے علاوہ اس غار میں زیرزمین ایک خفیہ سٹریکچر بھی موجود ہے جس میں بآسانی دس گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ موجود ہیں۔ یہ گھر آب و ہوا کو کنٹرول کرنے والے جدید سسٹم سے آراستہ ہے گھر میں آنے والے ہر مہمان کو ایک مائیکروچپ دی جاتی ہے جس کی مدد سے وہ موسمیاتی ماحول کو کنٹرول کر سکتا ہے بل گیٹس کو خفیہ ٹیکنالوجی بہت پسند ہے اور اسی وجہ سے اس کے گھر کے کمروں کی دیواریں خفیہ سپیکروں سے آراستہ ہے اِن اسپیکر وں سے ہلکی ہلکی گانوں کی آواز آتی ہے جنہیں مہمان اپنی مرضی کے مطابق تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ اس گھر کی سب سے خاص بات یہاں کی لائبریری ہے اکیس سو سکئر فٹ کے رقبے پر پھیلی اس لائبریری میں متعدد قدیم کتابیں موجود ہیں۔ جہاں بل گیٹس کا امیر ترین شخصیات میں شمار ہوتا ہے وہی امدادی کاموں میں بھی سب سے زیادہ رقم خرچ کرنے والے شخصیت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اس نے اپنی آدھی سے زیادہ دولت غریب ممالک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر رکھی ہے بل گیٹس کے گھر کے بارے میں اگر مزید بات کی جائے تو گھر میں انتہائی لگژری قسم کا پندرہ سو سکائر فٹ پر مبنی ایک سینما بھی موجود ہے جو ایک وقت میں کم سے کم بیس افراد کو اپنی انتہائی سکون دہ صوفے اور کرسیوں پر لطف اندوز کر سکتا ہے گھر کا فلور حساس آلات اور وزن بتانے کی اہلیت رکھتا ہے کہ گھر میں کہاں اور کون موجود ہے اس گھر کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے یعنی اس گھر کی اس طرح سے مانیٹرنگ کی جاتی ہے کہ جو بھی جس جگہ پر موجود ہوگا اس بارے میں اس شخص کو علم ہوجائے گا جو کہ مانیٹرنگ کر رہا ہوگا اور فلور انتہائی اساس ہے اتنا احساس ہے کہ اس کے ذریعے سے جو شخص اس فلور پر چل رہا ہوگا اس کا وزن بھی بتایا جاسکے گا وہ جہاں پر موجود ہوگا یہ بھی بتایا جا سکے گا اور یہ بھی بتایا جاسکتا ہے وہ کہاں پر چل کر گیا جیسا کہ پہلے لائبریری کے بارے میں آپ کو بتایا ہے کہ بل گیٹس کو کتابوں کے مطالعہ کا بھی بہت شوق ہے کوئی ایسا دن نہیں جس دن وہ مطالعہ نہ کریں اس لیے ہی ان کے گھر میں اکیس سو سکائر ٖفٹ پر مشتمل ایک انتہائی خوبصورت لائبریری ہے جس میں دنیا جہان کی بہت ساری کتابیں بھی موجود ہیں گھر میں موجود تیئس سو اسکوائر فٹ پر استقبالیہ کمرہ ہے جس میں 22 فٹ چوڑا ایل سی ڈی ٹی وی اور ایک بڑا فائر پلیس بھی ہے جس میں ایک وقت میں کئی افراد بھی بیٹھ سکتے ہیں۔


ترکی کتناطاقتور ہے ؟ اسلامی دنیا میں اگر کوئی ایک ملک امریکی بالادستی کو چیلنج کرتا ہے تو وہ ترکی ہے اس کی ایک مثال حال ہی میں دیکھنے میں آئی جب امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا عمل شروع کیا تو ترکی نے اسرائیل سے ڈپلومیٹک ریلیشنز توڑ دیے ۔ترکی کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں لیکن پھر بھی اس کا شمار دنیا کی بڑی طاقتوں میں ہوتا ہے آخر ترک قوم کی طاقت کیا ہے اور ترکی کتنا طاقتور ہے ہم دیکھتے ہیں اِس ویڈیو میں ۔ ویسے تو ترکی کا رقبہ پاکستان سے کم ہے اس رقبے میں موجود پانی اور آبادی بھی پاکستان سے تھوڑی ہے لیکن اس کے باوجود ترکی کی سب سے بڑی قوت اس کا جغرافیاہی ہے وہ یوں کہ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ترکی دونوں براعظموں کا دروازہ بن چکا ہے اس جیوگرافی کی اتنی اہمیت ہے کہ امریکہ اور روس دونوں چاہتے ہیں کہ ترکی ان کے کیمپ میں رہے اور ترکی اپنی اس اہمیت کو بہت اچھے طریقے سے استعمال کرتا ہے لیکن یہی جغرافیہ ترکی کی کمزوری بھی ہےکیونکہ ہر سال ایشیا سے یورپ جانے کے خواہش مند لاکھوں لوگوں کا ایک سیلاب ترکی میں آجاتا ہے جو ترقی کے لیے بڑا معاشی چیلنج کھڑا کر دیتا ہے یورپ سمجھتا ہے کہ ترکی ایسے تارکین وطن کو روکے گا جبکہ ترکی کے لیے انہیں روکنا اپنے ملک میں ٹھہرانا یا واپس بھیجنا تینوں کام ہی درد سر بن جاتے ہیں۔ 2015 میں ایلان کردی کی ترک ساحل سے ملنے والی لاش نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا تھا ترکی یورپی یونین کا رکن بننا چاہتا ہے لیکن اس کا جغرافیہ ہیں اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ یورپی یونین کے شہری بغیر ویزے کے سارے یورپ میں گھوم سکتے ہیں اگر ترکی یورپی یونین کا رکن بنتا ہے تو ہر سال ایشیا سے آنے والے لاکھوں تارکین وطن بھی باآسانی یورپ میں چلے جائیں گے اس لیے ترکی کی سر توڑ کوشش کے باوجود یورپی یونین ا سے اپنا رکن بنانے سے انکاری ہے۔ معاشی لحاظ سے دیکھیں تو ترکی 863 ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کے سترویں بڑی معاشی طاقت ہے ترک معیشت میں سیاحت ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ہر سال دنیا بھر سے ستر لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں اس کے علاوہ ترقی میں گاڑیوں الیکٹرونکس اور ٹیکسٹائل کے صنعت نے بھی بہت ترقی کی ہے فوجی میدان میں ترکی کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے ترکی دنیا کی آٹھویں بڑی فوجی طاقت ہے جبکہ پاکستان تیرویں بھارت چوتھی اور چین تیسری بڑی فوجی طاقت ہیں۔ نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے کوئی ملک ترکی کے فوجی مفادات کو براہ راست نقصان نہیں پہنچا سکتا ایسا کرنے کی صورت میں اسے مغربی فوجی اتحاد نیٹو سےبھی جنگ کرنا پڑے گی نیٹو اتحاد میں امریکہ کے بعد سب سے بڑی فوج ترکی کی ہی ہیں جس کی تعداد چار لاکھ دس ہزار ہے ترکی کے پاس ایک ہزار اٹھارہ لڑاکا طیارےہیں ۔ ترکی امریکہ کے تعاون سے ایف سکسٹین مینفیکچر بھی کرتا ہے جبکہ نیٹو کا رکن ہونے کے ناطے اسے ریڈار کی نظروں سے بچ کر اڑنے والے امریکی ایف 35 طیارے بھی ملیں گے ۔لیکن اس کے لیے امریکہ ترکی تعلقات میں آئی خرابی کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا ۔امریکی دباؤ کے باوجود ترکی نیٹو کا واحد رکن ملک ہے ۔جو روس سے جدید میزائل ڈیفنس سسٹم خرید رہاہے ۔ترکی کو اپنے جغرافیے اور اسلامی ممالک میں اہمیت کی وجہ سے وسیع سیاسی قوت بھی حاصل ہیں۔ جب امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تو ترکی کے صدر طیب اردگان نے اسلامی ممالک کا اجلاس بلاکر بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دے دیا ۔ترکی کے اس اقدام نے مسلمانوں کے دل جیت لیے تھے۔ تاہم جدید فوج اور معاشی طاقت کے باوجود ترکی تیزی سے مسائل کا شکار بھی ہو رہا ہے جن میں دو مسائل بہت بڑے ہیں ۔پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ ترکی کی کرد اقلیت نے آزادی کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ ان کردوں نے اب ترکی کی سرحد کے ساتھ شام اور عراق میں بھی اپنے فوجی اڈے قائم کر لیے ہیں ۔ترکی نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شام کے شمالی علاقے پر قبضہ کر لیا ہے ۔اور عراق میں بھی اس کی فوج داخل ہوچکی ہیں ۔اسی فوجی مداخلت کی وجہ سے ترکی کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ترکی کا دوسرا بڑا مسئلہ یورپی یونین اور امریکا سے خراب تعلقات ہیں۔یورپی یونین کو کردوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیوں پر ترکی سے شکایت ہے۔ لیکن امریکہ سے ترکی کے اختلافات کی وجہ سے زیادہ سنگین نوعیت کی ہے۔ 2016 میں جب ترک عوام نے فوجی بغاوت کو ناکام بنایا ۔تو اس سازش کا الزام ترکی نے فتح اللہ گولن پر لگایا تھا ۔فتح اللہ گولن اُس وقت امریکہ میں بیٹھے تھے۔ ترکی کے مطالبے کے باوجود امریکہ نے فتح اللہ غولن کو ترقی کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔یہ الزام بھی سامنے آیا کہ ترکی میں امریکی فضائی اڈا بھی فوجی بغاوت میں استعمال ہوا ہے۔ ان واقعات کے بعد ترکی نے امریکی کیمپ سے ہٹ کر روس سے تعلقات بڑھانا شروع کر دیئے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ترکی تیزی سے روس اور ایران کے قریب آ رہا ہے پاکستان اور قطر سے بھی اس کے بہترین تعلقات ہیں تاہم شام ایران اسرائیل سعودی عرب اور امریکہ سے اس کے تعلقات کافی حد تک کشیدہ ہوچکے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ترکی اپنی بہترین جغرافیائی پوزیشن معاشی ترقی نیٹو کی ر کنیت اور فوجی طاقت کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقت ہے ۔تاہم کردوں کی بغاوت امریکہ اور یورپ سے مسلسل کشیدہ تعلقات اور ہمسایہ ممالک کے بگڑتی صورتحال نے ترکی کے لئے بڑے چیلنچ پیدا کر دیے ہیں ۔


اسلام علیکم علیکم دوستو 
یہ دنیا عجائبات سے بھری پڑی ہے قدرتی مناظر ہوں یا ان میں چھپے حقائق سب کو دیکھ اور سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن میں ہمیں جا بجا قدرت پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے انسان چاہے جتنی بھی ترقی کر لے لیکن قدرت کے ان شاہکاروں کے آگے اس کی طاقت کم پڑ جاتی ہے اور یہی وجہ انسا ن کو ایسے عجائبات کی کھوج میں لگائے رکھتے ہیں جس سے وہ نا واقف ہے ۔ دوستوں آج کا ہمارا پر ٹاپک بھی آپ کو انہی عجائبات سے گزارتے ہوئے دنیا کے اس پر اسرار مقام پر لے جائے گا جسے ایمازون فارسٹ یا ایمزونیاں اور ایمازون جنگل کہتے ہیں جنوبی امریکہ میں ایمزون تاس پر محیط ایک برساتی جنگل ہے یہ دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے جو دریائے ایمزون اور اس کے معاون دریاؤں کےگرد پھیلا ہوا ہے اس کا رقبہ 25 لاکھ مربع میل یعنی تقریبا پورے آسٹریلیا کے برابر ہیں اور اس کے دریا کا نظارہ 208 میل کی دوری سے بھی دیکھا جاسکتا ہے خواتین و حضرات اس جنگل کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں 400 سے 500 قبائل کا بسیرا ہے جن میں سے پچاس ایسے قبائل ہیں جن کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسانی دنیا سے ناواقف ہیں۔ یہ لوگ تیر کمان سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور بندروں کو اپنی غذا بناتے ہیں اس کے علاوہ یہاں کی زرخیز آب و ہوا میں عجیب و غریب قسم کے جانور پائے جاتے ہیں کہا یہ جاتا ہے کہ ایمازون کی مکڑیاں اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ پرندے پکڑ لیتی ہیں اس کے علاوہ ان جنگلات میں سب سے بڑی تبدیلیاں اور اس کے علاوہ دنیا کے تمام پرندوں کی آدھی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ اس جنگل میں 1300 پرندوں 40000 پودوں اور 3000 مچھلیوں کی اقسام کے علاوہ جہاں چارسو تین قسم کے میملز اور 5.2 ملین حشرات الارض پائے جاتے ہیں ہیں اس کے علاوہ ایمزون کو حیرت انگیز اور خوفناک مخلوق کا گھر بھی کہا جاتا ہے جس میں الیکٹرک خونی جانور زہریلے مینڈک اور زہریلے سانپ یعنی اینا کونڈا وغیرہ شامل ہیں۔ دوستو اینا کونڈا سانپ جنوبی امریکہ میں پایا جانے والا ایک طرح سے اس دنیا کا سب سے بڑا سانپ مانا جاتا ہے عام طور پر اس کی لمبائی 5 سے 6 میٹرہوتی ہیں لیکن کچھ ایناکوڈا تو دس میٹر کی لمبائی تک پہنچ جاتے ہیں اور اب تک جو سب سے لمبا اینا کونڈا کولمبیا میں پکڑا گیا تھا جس کی لمبائی43،11 میٹر تھی اور یہ کئی گنا زیادہ موتا تھا اس کے علاوہ انسان کو نگلنے والے اینا کونڈا کی کہانیوں پر یقین کرنا تو مشکل ہے لیکن سانپوں کا جائزہ لینے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ بڑے سائز کے اینا کوڈا کم از کم ایک بچے کو نگل سکتے ہیں لیکن ان کی تعداد آج بھی نمک کے برابر ہے ۔ جب امریکہ کے ایک سابق صدر نے اعلان کیا تھا کہ جو کوئی انہیں دس میٹر لمبا اینا کونڈا لاکر دے گا تو وہ ا سے پانچ ہزار ڈالر انعام دیں گے لیکن کسی نے دس میٹر لمبا سانپ پیش ہی نہیں کیا ایسا اس لیے ہوا کیونکہ اتنی لمبائی کے اینا کونڈا بہت کم ہوتے ہیں اور مشکل سے ملتے ہیں خواتین و حضرات یہ سانپ تقریباً ساٹھ ملین برس قبل کولمبیا کے رین فارس میں پایا جاتا تھا محقیقین کے مطابق یہ سانپ اتنا چوڑا تھا کہ ایک عام فرد کے شخص کے کولوں تک پہنچ سکتا تھا اور اس کا وزن ایک اندازے کے مطابق ایک ٹن سے زائد تھا۔ واضح رہے کہ سبزایناکوڈا جس کو دنیا کا وزنی ترین سانپ کہا جاتا ہے اس کا وزن ڈھائی سو کلو گرام ہے جب کہ پیتھن جس کو طویل ترین سانپ کہا جاتا ہے اس کی لمبائی 32فٹ ہے اور اس کے بعد اگر ہارر مُنکی کا ذکر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر موجود جانوروں میں اگر کوئی سب سے زیادہ چیخنے چلانے اور شور مچانے کے لیے مشہور ہے وہ جنوبی امریکہ کا بندر ہے ۔ ناظرین گرامی سرخ اور سیاہ رنگ کے ان بندروں کو ان کی خصوصیت کی بنا پر ہارر مونکی یعنی چیخنے چلانے والا بندر کہہ کر پکارا جاتا ہے جنوبی امریکا کے جنگلوں میں پائے جانے والے یہ بندر عام طور پر گروپ کی شکل میں رہتے ہیں ہر گروپ میں دس سے پندرہ بندر شامل ہوتے ہیں اور ہر گروپ کا اپنا ایک مخصوص علاقہ ہوتا ہے اور اگر کسی دوسرے گروپ بندر ان کے علاقے میں گھس جائے تو یہ چیخ چیخ کر اسے اپنے علاقے سے نکال دیتے ہیں ان کے چیخنے چلانے کی آوازیں اس قدر شدید ہوتی ہیں کہ پانچ کلو میٹر تک بآسانی سمجھی جاسکتی ہیں ۔ اس کے بعد تیندوا کا نمبر آتا ہے۔جو ایک بڑا طاقتور کالے دھبوں والا گوشت خور شیر نما جانور ہے جسے جیگوار بھی کہا جاتا ہے دراصل چیتے سے مشابہت رکھنے والا یہ جانور بلی کی نسل فیلی ڈی سے تعلق رکھتا ہے اس کا شمار دنیا کی چار بڑی بلیو میں سے ہوتا ہے یہ وزن میں چیتے سے بھاری ہوتا ہے اور اس کا سر چیتے سے بڑا ہوتا ہے ہے دوستو اس کے علاوہ بھی جنگل میں ایسی مافوق الفطرت مخلوقات پائی جاتی ہیں جن کا تصور انسانی دماغ سے باہر ہیں یہ جنگل اپنے آپ میں ایک مثال ہے اور اس کی سب سے بڑی اور منفرد بات جو زمین پر اس کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے وہ یہ کہ ہمیں زندہ رکھنے کے لیے دنیا کو بیس فیصد آکسیجن اسی جنگل سے حاصل ہو رہی ہے اور شاید اسی وجہ سے اسے لنگز آف ارتھ کا نام دیا جاتا ہے اور کہاں جاتا ہے اس جنگل میں درختوں پر کھناؤ اتنا ہے کہ بارش کا پانی بھی زمین پر گرنے میں دس منٹ لگا دیتا ہے۔